Tuesday, July 27, 2010

بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو

بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو

ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا

اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا

جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل

وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا

غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں

پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا

حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر

کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

محروم رہا دولت دریا سے وہ غواص

کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارا

دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت

ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

دنیا کو ہے پھر معرکہء روح و بدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا

اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا

ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

تقدیر امم کیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا

مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا

اخلاص عمل مانگ نیا گان کہن سے

شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!